کافی
دنیا کا سب سے زیادہ پسندیدہ گرم مشروب کافی ہے۔ کافی لاکھوں لوگوں کو اپنے کام کے دوران چُست رکھتی ہے اور لاکھوں لوگ اپنے بہترین فارغ وقت میں اس کا لُطف اُٹھاتے ہیں۔ یہ عالمی منڈی کا ایک اہم جز ہے اور پٹرول کے بعد دوسری اہم ترین تجارت ہے۔ کافی کا رنگ گہرا ہوتاہے، ذائقے میں تلخ اور قدرے تیزابیت مائل ہے۔ یہ انسانوں کے اندر اپنے بنیادی جز کیفین کی وجہ سے تحریک پیدا کرتی ہے۔ لفظِ کیفین کے بارے میں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کافی سے اخذ شدہ ہے اور بہت سے دوسرے الفاظ کی طرح اس کا اصل ماخذ عربی زبان ہے۔ ہم بہت سے الفاظ کو بغیر تحقیق انگریزی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
کافی کو کئی طریقوں سے تیار اور پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایسپریسو، فرانسیسی بریو کیفے لاتے یا تیار شدہ کافی کے ٹین کے ڈبّوں یا بوتلوں وغیرہ میں۔ یہ چائے کے مقابلے میں کافی قدرے تلخ ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً سب ہی لوگ چائے میں دودھ اور چینی شامِل کرتے ہیں۔ اسی طرح کافی میں بھی عموماً دودھ، پاؤڈر دودھ اور کریم، چینی کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے تا کہ کافی کی تلخی کچھ کم ہو جائے اور اس کا ذائقہ اور خوشبو نِکھر جائے۔ جبکہ کچھ لوگ کالی کافی، بغیر دودھ چینی کے پسند کرتے ہیں۔ زیادہ تر یہ بطور گرم مشروب استعمال ہوتی ہے، مگر کچھ لوگ ٹھنڈی یخ کافی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر لفظ کافی کو لیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ بہت سی زبانوں میں بعنیہٖ استعمال ہوتا ہے بشمول اُردو اور ہندی۔ یورپی ممالک میں ڈَچ قوم نے سب سے پہلے اس مشروب کو ’کافی‘ پُکارا۔ ڈَچ زبان میں یہ لفظ ترکی سے آیا جہاں عثمانی ترک اس مشروب کو "کاہوے" کے نام سے پُکارتے تھے۔ انہوں نے یہ لفظ عربی زبان سے مستعار لیا جہاں یہ ’قَھُوَۃ‘ کہلاتا تھا۔ انگریزی زبان میں بھی لفظ کافی 1582 میں ڈَچ زبان سے داخل ہوا۔ اگر ہم قَھُوَۃ کے پیچھے ہی پڑجائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عرب لغت نویس کہتے ہیں کہ یہ لفظ قَھِییّ سے نکلاہے جس کا مطلب ہے "بھوک کم کرنا" یعنی قَھُوَۃ بھوک کو مار دیتا ہے جو کافی کی ایک اہم خاصیت ہے۔
کافی ایک پھل ہے
جب کافی کا خیال آتا ہے تو ہمارے ذہن میں ایک پِسے ہوئے باریک کتھئی سفوف کا تصور آتا ہے یا پھر کتھئی دانے، یہ کتھئی رنگ کے اس لئے ہوتے ہیں کیوں کہ اِن کو بھونا جاتا ہے۔ درحقیقت کافی کا آغاز ایک پھل کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس کا درخت دس سے پندھرا فٹ تک پہنچ جاتا ہے اور جہاں تک ان کے جگہ گھیرنے کا تعلق ہے تو کوئی تو دو گز چوڑا ہوگا اور کوئی چھ گز تک جگہ گھیر لے گا۔ ان پر لال بیر کی شکل میں پھل آتے ہیں۔ اِن کو "کافی چیریز" کہتے ہیں۔ ان کے اندر بیج ہوتا ہے جسے نکال کر بھونا اور پیسا جاتا ہے۔ نرسریوں میں کافی کی پنیری لگائی جاتی ہے۔ سال بھر بعد انہیں زمین میں لگا دیا جاتا ہے۔ وہاں مزید پانچ سال تک ان کی پرورش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد پودوں پر پھل آنا شروع ہو تا ہے جس کو ’کافی چیریز‘ کہتے ہیں۔ چیری اردو زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے ویسے اردو میں چیری جیسے پھل کو "شاہ دانہ" کہتے ہیں۔ اسے ہم بیج یا دال بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب یہ لال پھل پک جاتا ہے تو اس کے اندر سے بیج نکال کر بھونا جاتا ہے اور بطور کافی استعمال کرتے ہیں۔ کافی کے پودے کی ہزاروں اقسام ہیں لیکن تجارتی مقاصد کے لئے صرف دو اقسام استعمال ہوتی ہیں: “کافی عربیکا“ (عربی کافی) اور “کافی کَین فورا یا روبَسٹا “۔ان دونوں اقسام کی کافی کے مجموعے بھی بازار میں ملتا ہے۔
کافی عربیکا
کافی عربیکا، عربی کافی بھی کہلاتی ہے۔ یہ ایک پھول دار پودا ہے جو "روبیا" (یورپی نسل کا ایک پودا) خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ کافی کی اِسی قسم کو سب سے پہلے باقاعدہ کاشت کیا گیا تھا اور جدید دور میں اس کی سب سے زیادہ کاشت ہوتی ہے جو عالمی کاشت کا تقریباً 60 فیصد ہے۔ عربی کافی کی ابتداء یمن سے ہوئی جہاں سب سے پہلے اِسے باقاعدہ کاشت کیا گیاتھا۔ یہ 12ویں صدی عیسوی میں ہوا۔ عربی کافی کو عربی زبان میں "البُن ُ" کہتے ہیں، یہ لفظ امہاری زبان جو کہ ایتھوپیا کی سامی النسل سرکاری و درباری زبان سے ہے۔
کافی روبسٹا
عام طور سے اسے کافی روبسٹا کہتے ہیں لیکن اسے ’کینے فر‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی اصلی جگہ افریقہ کا وسطی اور مغربی زیریں صحارا ہے۔ یہ پھول دار پودا "روبیا کا" خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا سائنسی نام ’کافیہ کَینے فورا‘ ہے جس کی دو بنیادی اقسام "روبسٹا" اور "نَگیَنڈا" ہیں۔ ’کافی روبسٹا‘ کافی کی عالمی پیداوار کا 43 فیصد اور باقی حصّہ "کافی عریبیکا" کا ہے۔ اِن دونوں کے بیجوں میں کئی ایک فرق ہیں۔ روبسٹا کے بیج، عریبیکا کے مقابلے میں تیزابیت میں کم مگر تلخی میں زیادہ ہیں، اِسی طرح یہ لکڑی جیسے سخت سخت سے ہیں اور کھانے میں پھل سا مزا بھی کم ہے۔
کافی کی تاریخ
کافی کی تاریخ کچھ اتنی قدیم اور مبہم ہے کہ وثوق نہیں کہا جا سکتا کہ کب دریافت ہوئی۔ لیکن مستند روایات جو ملتی ہیں وہ 850 عیسوی تک جا پہنچتی ہیں یہ دور کوئی زیادہ قدیم نہیں ہے۔ ظہورِ اسلام کے تقریباً 300 سال بعد یہ متعارف ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ’کالدی‘ نام کے ایک ایتھوپین چرواہے نے اپنی بکریوں کا مشاہدہ کیا کہ جب اس کی بکریاں عریبیکا جھاڑی کے بیر (پھل) کھاتی ہیں تو وہ بہت چُست ہو جاتی ہیں۔ چرواہے نے خود بھی اِن بیروں کو کھایا تو اس نے بھی کیفین کے اثرات کو اپنے جسم میں محسوس کیا۔
جاتا ہے۔ دار الحکومت عدیس ابابا کے جنوب مغرب میں 286 میل کے فاصلے پر کافھَ کا علاقہ ہے۔ یہاں کافی کے درخت انسانی کاوش کے بغیر ہی جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ پہاڑی جنگلات میں اس کی 5000 کے قریب جنگلی/خود رو اقسام موجود ہیں۔ کافی کی دریافت کا ایک اور افسانہ یمن کے شیخ عمر سے منسوب ہے۔ عبدالقادر کے ایک پُرانے مسودے میں محفوظ تحریر کے مطابق "عمر" جو دعا کے ذریعے بیماروں کا علاج کرنے میں مشہور تھا …… وہ ایک