ن بھوت، جادو ٹونا، تعویز کے نہیں شیزوفرینیا کے ہیں شکار بیچارے لوگ
شیزوفرینیا سے دنیا میں تقریباً 21 ملین افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر مناسب دیکھ بھال سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے بہت سے مریض پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں شیزوفرینیا کتنا پھیل چکا ہے اس کا صحیح علم نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہماری 2 فی صد آبادی اِس عارضہ میں مبتلا ہے۔
سر سید یونیورسٹی کراچی، پاکستان، سے وابستہ نیورومائنڈ اسپتال کے شاہ زین حسن اور میڈی کیئر کارڈیک اینڈ جنرل اسپتال، کراچی سے وابستہ منصف عادل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ترقی پذیر ممالک میں شیزوفرینیا کے متاثرین کو شاید بہت کم رسمی دیکھ بھال نصیب ہوتی ہے یا پھر بالکل بھی نہیں ملتی۔ بعض کو گھروں سے باہر کر دیا جاتا ہے اور وہ بلا تشخیص باقی ماندہ زندگی بے گھر ہی رہتے ہیں۔ پاکستان کی زیادہ آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جہاں
خواندگی کی شرح ویسے ہی کم ہے لہٰذا ان کو اس عارضے کا سرے سے علم ہی نہیں۔ اس وجہ سے شیزو فرینیا سے متاثر افراد کو آسیب، جادو ٹونا، تعویز، سفلی عمل یا سحر زدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے گھر والے اپنے مریض کو ماہرِ نفسیات کے پاس لے جا کر مشورہ کرنے کے بجائے پیر، فقیر، بزرگوں، عاملوں اور بابائوں کے پاس لے جاتے ہیں اور جب کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بلآخر تھک ہار کر انہیں سڑکوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ مریض باقی زندگی معاشرے میں غیر انسانی انداز میں گزارتے ہیں، مانگے تانگے کا کھاتے ہیں اور پہنتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص ہی، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچّہ ہو یا بوڑھا عجیب عجیب باتیں کیا کرتا ہے اور ہمارے ساتھی ہمیں ٹوکتے رہتےہیں کہ ایسا مت کرو ویسا مت کرو۔ لیکن بعض حضرات و خواتین ایک تو کچھ عجیب حرکتیں کرتے ہیں اور پھر وہ بتانے اور سمجھانے پر بھی اپنی حرکات سے نہیں رُکتے اور لگتا ہے کہ انہیں اپنے پر قابو نہیں ہے۔ ایسے عجیب حرکتیں کرنے والے لوگ سب کی ہی نگاہ میں فوراً آجاتے ہیں، اور لوگ فوراً ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ عام انسانوں سے مختلف ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اس لیے ایسے لوگوں کو سمجھا جانے لگتا ہے کہ ان پر جن، بھوت یا پری کا سایہ ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ان کے لیے کسی پیر فقیر یا باوا کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ یہ علاج چلتا ہے اس کے بعد بار بار کی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اللّہ لوگ ہیں، ان میں سے بہت سوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے، وہ آوارہ سڑکوں پر گھومتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ اصل میں شیزوفرینیا کے مریض ہوتے ہیں۔ یہ علاج سے اگر بالکل ٹھیک نہیں تو کم از کم بہتر ضرور ہو سکتے ہیں۔ ان کا علاج صرف اسپتال میں ڈاکٹروں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ انہیں وہاں پہنچ جانے کو اللّہ کی خوشنودی حاصل کرنا سمجھنا چاہیے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ شیزو فرینیا کیا ہے۔
شیزوفرینیا ایک دماغی مرض ہے، اللّہ نہ کرے کسی کو ہو، اگر کسی کو ہو جائے تو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ آدمی ایسی چیزیں دیکھنے اور سننے لگتا ہے جو اس کے سامنے یا قریب ہوتی ہی نہیں، اور ایسی چیزوں پر یقین کر نے لگتا ہے جو حقیقی نہیں۔
علامات
1۔ مثبت علامات: اِس سلسلے میں ”مثبت“ کا مطلب ”اچھا“ نہیں ہے۔ مثبت علامات کا مطلب ہے وہ علامات جو کسی شخص کے رویّے میں ظاہر ہو کر شیزوفرینیا کی تصدیق کرتی ہیں۔
چند مثالیں
خفقان: ایسی چیزیں سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، یا سونگھنے یا چکھنے کا دعویٰ کرنا جوحقیقت میں ارد گرد نہیں، یا ایسے شخص کے تجربے میں نہیں آئیں۔ مثلاً شیزوفرینیا کے متاثرین اکثر ایسی آوازیں سنتے ہیں جیسے کوئی انہیں کسی کام کے کرنے کے لیے کہہ رہا ہو جبکہ وہاں کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔
- وسوسہ: بے حقیقت چیزوں پر پورا یقین ہونا۔ مثلاً شیزوفرینیا کا مریض ایک نامور شخصیت کو چن لیتا ہے، اور یہ یقین کرلیتا ہے کہ وہ خود ہی وہ نامور شخصیت ہے، جبکہ وہ شخصیت کب کی مر کھپ چکی ہوتی ہے۔ مثلاً آج کل کا ایک ایسا مریض کہہ سکتا ہے کہ وہ ہی علامہ اقبال ہے۔
- بے ربط سوچ یا گفتگو: شیزوفرینیا والے بے ربط اور بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں۔ وہ ادھر اُدھر کی باتیں بہت کرتے رہتے ہیں ان کے پاس کوئی مدعا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات وہ ایسے الفاظ بول جاتے یا ایسی باتیں کرتے ہیں جن کے کوئی معنی مطلب نہیں ہوتے۔
2۔ منفی علامات: یہاں” منفی“ کا مطلب ”بُرا“ قطعاً نہیں۔ منفی علامات وہ عام رویّے ہیں جو ظاہر نہیں ہوتے۔ اس کی کچھ مثالیں پیش ہیں
- - جذبات ظاہر نہ ہوں اور چہرا تاثرات سے عاری رہے
- - بہت کم حرکت کرنا اور خاموش رہنا
- - اپنی صفائی کا کوئی خاص خیال نہ رکھنا
- - لوگوں سے دور رہنا یا کسی تفریح یا دل لگی میں دلچسپی نہ لینا
3۔ سوچنا سمجھنا: یہ وہ علامات ہیں جو متاثرہ سوچ ، سمجھ اور یادداشت کا پتا دیتی ہیں شیزوفرینیا کے مریضوں کو درجِ ذیل باتوں میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے
- - سیکھنا اور یاد رکھنا
- - گفتگو اور رابطہ کے اور طریقوں کی سمجھ، مثلاً ہاتھ کے اشاروں کو سمجھنا
- - نئی معلومات اور اطلاعات کو سمجھ لینا
- - مسئلے مسائل کو حل کرلینا، گتھیاں سلجھانا۔
4۔ جذباتی علامات: شیزوفرینیا کے متاثرین میں اکثر بے چینی اور ذہنی دباؤ کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔
ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا شیزوفرینیا کی تشخیص کے لئے کوئی ٹیسٹ ہے؟
تو اس کا جواب ہے، ’جی نہیں‘۔ شیزوفرینیا کا پتا لگانے کے لیے کوئی ٹیسٹ نہیں۔ لیکن ڈاکٹر یا نرس مریض میں علامات دیکھ کر اور اس کا معائنہ کر کے یہ بتا سکتے ہیں۔ ویسے ڈاکٹر تشخیص یقینی بنانے کے لیے کئی ٹیسٹ کروا سکتے ہیں جو شیزوفرینیا کے نہیں ہوں گے بلکہ یہ دیکھنے کے لیے ہوں گے کہ کہیں یہ علامات کسی اور بیماری یا مسئلہ کی وجہ سے
تو نہیں؟
شیزوفرینیا کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
شیزوفرینیا میں ادویات دی جاتی ہیں جن سے علامات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے، ساتھ ہی مریض کومختلف اقسام کی طبّی صلاح اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادویات سے شیزوفر